ولی کو ولی پہچانتا ہے | اچھا اچھے کو، برا برے کو پہچان لیتا ہے۔

 ہو سکتا ہے میں اپنی بات واضح نہ کر سکوں، لیکن کوشش ہو گی کہ آپ کو انڈرسٹینڈنگ کے اگلے لیول تک لے جاؤں۔

ولی کو ولی پہچانتا ہے | اچھا اچھے کو، برا برے کو پہچان لیتا ہے۔



فارسی کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ، ولی را ولی می شناسد، یعنی ولی کو ولی پہچانتا ہے۔
یہ اصول تمام کوالیٹیز پر صادق آتا ہے،
ہر کوالٹی والا اپنی کوالٹی والے کو پہچانتا ہے،
ایڈمنسٹریٹر کو پتہ چل جاتا ہے، کہ فلاں آدمی ایک اچھا ایڈمنسٹریٹر ہے،
بزنسمین کو دوسرے بزنسمین سے مل کر اندازہ ہو جاتا ہے، کہ اس کی بزنس سینس کس لیول پر ہے،
سائنسدان کو سائنسدان کا اندازہ ہو جاتا ہے،
سیاستدان کو سیاستدان کا اندازہ ہو جاتا ہے، اور اسی طرح دوسری کوالٹیز والوں کو اپنے جیسی کوالٹیز رکھنے والوں کا اندازہ ہو جاتا ہے، کہ وہ کس لیول پر ہیں، ان سے کتنا آگے ہیں، کتنا پیچھے ہیں، کتنا میچؤر ہیں کتنا امیچؤر۔
دنیا اسی طرح چل رہی ہے۔ اچھا اچھے کو، برا برے کو پہچان لیتا ہے۔
ایک جیسی عادتوں، ایک جیسی کوالیٹیز والے اکٹھے ہو ہی جاتے ہیں۔
ایک میوزیشن دوسرے کو پہچان لیتا ہے، کہ اس کی میوزک سینس کیسی ہے۔ وہ بچے کو دیکھ کر پہچان لیتا ہے، کہ یہ بچہ بڑا ہو کر میوزیشن بنے گا۔
ایکٹر ایکٹر کو پہچان لیتا ہے۔
شاعر شاعر کو پہچان لیتا ہے، کہ اس میں شاعری کا، بڑے شاعر بننے کا کتنا ٹیلنٹ ہے۔
انسانوں میں بیشمار کوالیٹیز ہیں۔ کچھ سامنے آ چکی ہیں، کچھ ابھی چھپی ہوئی ہیں۔ گیمز ہوں، کھانا پکانا ہو، لباس کی تراش خراش ہو، ایک سے بڑھ کر ایک موجود ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ایک کوالٹی دوسرے انسانوں میں بھی کچھ نہ کچھ ہوتی ہے، لیکن کوئی ایک اس میں ایکسپرٹ بھی ہوتا ہے۔ ایکسیل کر جاتا ہے، دوسروں سے آگے نکل جاتا ہے۔ کچھ نہ کچھ سارے پکا لیتے ہیں، لیکن کچھ اس کام میں بہت آگے نکل جاتے ہیں، وہ نئی ریسیپیز بھی بنا لیتے ہیں۔
پھر انسان کے دماغ میں ایک صلاحیت ہے، کہ وہ دوسروں کے کام کو دیکھ کر، اپنا کام بہتر بنا لیتا ہے۔ دوسروں کے آیڈیاز کو سن کر، پڑھ کر، ویسے ہی آیڈیاز خود بھی سوچ لیتا ہے۔
شاعری کا، الفاظ کے اچھے استعمال کا تھوڑا بہت ذوق سب کو ہوتا ہے۔ گانے سننے کا، گانے پسند کرنے کا، تھوڑا بہت گنگنانے کا ہنر سب کو آتا ہے، لیکن کچھ اس کام میں بہت آگے نکل جاتے ہیں۔
ایکٹر دوسرے ایکٹروں کی ایکٹنگ سے سیکھتا ہے۔ گلوکار دوسرے گلوکاروں کی گلوکاری سے سیکھتا ہے۔ شاعر دوسرے شاعروں کی شاعری سے سیکھتا ہے۔ بزنسمین دوسرے بزنسمینوں کے بزنس آیڈیاز سے سیکھتا ہے۔ پولیٹیشن پولیٹیشن سے سیکھتا ہے۔
یہی دنیا کی رنگا رنگی کا سبب ہے۔
ایک جیسی ہونے کے باوجود صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں۔ اچھی اور بری بھی ہوتی ہیں، اور نئی اور پرانی بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیک ہونا بھی ایک صلاحیت ہے۔ نیک ہونے کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ کئی معیار ہیں۔ کئی صورتیں ہیں۔
تھوڑا بہت نیک ہونا تو ہر انسان کی فطرت ہے۔ کچھ مختلف سطح تک نیک ہونا، ہماری مذہبی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ کچھ دوسری صلاحیتوں کی طرح یہ صلاحیت بھی اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ودیعت کر رکھی ہے۔
میں نیک ہونے کی صلاحیت کو سمجھانے کے لئے، اسے شاعری کی صلاحیت سے ملا کر بتانے کی کوشش کرتا ہوں۔
لفظوں کا اچھا استعمال، خوبصورت الفاظ، شاعرانہ اظہار، ہر انسان کی صلاحیت ہے۔ کچھ انسان اس صلاحیت میں میچؤر ہو جاتے ہیں، اور شعر کہنے لگتے ہیں۔ اچھے خیال، اچھے شعر کی تعریف ہر انسان کا مزاج ہے۔ کچھ انسان تخلیق بھی کرنے لگتے ہیں۔ زیادہ تر پڑھنے اور سننے کی حد تک رہتے ہیں، لیکن کچھ کہنے بھی لگتے ہیں، لکھنے بھی لگتے ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت دے رکھی ہوتی ہے، کہ وہ دوسروں کی سوچیں پڑھ کر، ویسی ہی سوچ خود بھی سوچ سکتے ہیں۔ بعض دفعہ مختلف بھی اور بعض دفعہ بہتر بھی۔
نیک ہونے کی صلاحیت بھی اسی طرح ہے۔
تھوڑے بہت نیک تو سبھی ہوتے ہیں۔ کچھ مزید نیک ہو جاتے ہیں۔ وہ دوسروں کی نیک سوچوں اور نیک اعمال کو دیکھ کر، ویسی ہی نیک سوچیں، اور اعمال دہرانے کی صلاحیت پیدا کر لیتے ہیں۔ وہ اپنی صلاحیت سے دوسرے لوگوں کی صلاحیت پہچان لیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ مزید نیک ہو جاتے ہیں، اور نیکی ہی ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بن جاتی ہے۔ انہیں کسی اور کام میں دلچسپی ہی نہیں رہتی۔
آپ کہہ سکتے ہیں، کہ تھوڑا بہت شعر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن باقاعدہ شاعر بننے کی کیا ضرورت ہے۔ بہرحال آپ کو پتہ ہے کہ کسی نہ کسی نے باقاعدہ شاعر بھی بننا ہی ہے۔ کسی نہ کسی نے محض داد دینے تک رہنا ہے۔ کبھی کبھی، کہیں کہیں کوئی شعر پڑھ کر محظوظ ہونے تک رہنا ہے۔ لیکن کسی نہ کسی نے باقاعدہ شاعر بھی بننا ہے۔
یہی حال گلوکاری کا ہے۔ آپ ذاتی طور پر سننے کے شوقین ہیں، کبھی کبھی کچھ گنگنا بھی لیتے ہیں، لیکن کسی نہ کسی میں یہ صلاحیت میچؤر ہو کر نکلے گی، اور وہ باقاعدہ گلوکار بن جائے گا۔
نیکی میں بھی کچھ لوگ اسی طرح آگے آ جاتے ہیں، ایکسیل کر جاتے ہیں، میچؤر ہو جاتے ہیں، بڑھ جاتے ہیں۔ ان کے شب و روز عبادتوں میں گزرنے لگتے ہیں۔ انہیں عبادتوں کے علاوہ کسی اور چیز کی سمجھ ہی نہیں آتی۔ انہیں عبادتوں کے علاوہ کچھ اور کرنا ہی نہیں آتا۔ آہستہ آہستہ وہ ہر دوسری چیز سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ وہ بس نیک رہ جاتے ہیں۔
نیکی کے اعلیٰ ترین معیار پر تو رسل اور انبیاء ہی فائز ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے بعد تو نبوت کا دروازہ بھی بند ہو چکا ہے۔
اب تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اسوہ حسنہ، یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت پر عمل کرنے کا دروازہ کھلا ہے۔ جو جتنا کر سکے کر لے۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت مبارکہ پر عمل کرتے کرتے، اور مسلسل عمل کرتے کرتے، کچھ لوگوں کے باطن میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے، اور وہ نیکی کے سرچشمہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ انہیں اپنے اندر اس منبع کا اندازہ ہو جاتا ہے، جہاں سے تمام نیک احساسات، نیک سوچیں، نیک رویے، نیک اعمال پھوٹتے ہیں۔ انہیں نیکی کی پہچان حاصل ہو جاتی ہے۔ ایسے انسانوں کو دیکھنے اور سننے والے بھی نیک ہو جاتے ہیں۔
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post